اہم مواد پر جائیں

بچپن میں ہونے والے کینسر میں جِلد کی دیکھ بھال

زخم اور جِلد کی دیکھ بھال کی اہمیت

کینسر کے شکار بچوں میں زخموں اور جِلد کی دیکھ بھال انتہائی ضروری ہے۔ مستقل دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی سے بہت ساری پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

بچوں کو ہونے والے کینسر کا شمار نوجوان مریض اپنے بھائی کے ساتھ باہر کھیل رہا ہے

مریضوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ زخموں کی نشوونما کے آثار دیکھیں، اور کسی بھی تکلیف کے بارے میں طبی ٹیم کو بتائیں۔

جِلد انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو ہے، جس کا کل رقبہ تقریبا 20 مربع فٹ ہے۔ یہ جسم کے دفاع کی پہلی لکیر ہے جو حفاظتی رکاوٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دیگر اعضاء اور نرم ٹشو کے ساتھ جِلد جسم کی حفاظت کرنے ، اسکو ٹھیک کرنے، اور اس سے تعاون کا کام بھی کرتی ہے۔

عام حالات میں، جِلد میں ٹھیک ہونے اور دوبارہ آنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ صحت مند بچوں میں، اضافی مسائل کے بغیر جِلد میں ہونے والی زیادہ تر ٹوٹ پھوٹ ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ لیکن، کینسر اور کینسر کے علاج مدافعتی نظام کو کمزور کرسکتے ہیں۔ حتی کہ چھوٹا سا شگاف بھی انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔ جِلد کو پیش آنے والے مسائل کینسر کے کچھ علاجوں کے غیر مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ ایک بچے کی جِلد کسی بالغ کی جِلد کے مقابلے میں کم بڑھتی ہے، اور عمر کے لحاظ سے جِلد کی دیکھ بھال کی ضروریات بہت مختلف ہو سکتی ہیں۔

زخم اور جِلد کی دیکھ بھال کے بارے میں بات کرنا 

اہل خانہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کینسر کا علاج کروانے کے دوران زخم اور جِلد کی دیکھ بھال کے بارے میں بات چیت کریں۔ جہاں محتاط دیکھ بھال اور جِلد کی مستقبل جانچ ضروری ہیں، وہیں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جِلد پر توجہ دیں اور کسی مسئلے کے آثار نظر آنے پر بتائیں۔ مریض زخموں اور جِلدی مسائل بتانے میں غیر مطمئن یا شرمندگی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ بچوں میں معمولی بات نہیں ہے — خاص طور پر نو عمروں میں — جب تک انہیں سخت تکلیف نہ ہوجائے وہ نہیں بتاتے ہیں۔ وہ جسم کے مخصوص حصوں میں جانچ کروانے سے بچنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔

جِلد کی دیکھ بھال کے بارے میں بات کرنا اور یہ کیوں ضروری ہے بچوں کو اپنی جِلد پر زیادہ توجہ دینے میں مدد دے سکتی ہے۔ اہل خانہ — مریض اور دیکھ بھال کرنے والے دونوں — کو چاہئے کہ وہ زخموں کی نشوونما کے آثار کا دھیان رکھیں، اور کسی بھی تکلیف کے بارے میں طبی ٹیم کو آگاہ کریں۔


نظر ثانی: جون 2018